حضرت مولانا یعقوب چرخی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ کی ولادت غزنی کے چرخ نامی گاؤں میں ۷۶۲ ہجری میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت خواجہ عثمان بن محمود رحمتہ اللہ علیہ ایک بلند پایہ عالم اور صوفی تھے۔حضرت یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ نے جامعہ ہرات اور دیار مصر میں تعلیم حاصل کی۔ آپ مولانا شہاب الدین سیرامی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد تھے جو اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔آ پ کو فتویٰ کی اجازت علمائے بخارا نے دی۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہونےسےپہلےآپ کو ان سےبڑی محبت اورعقیدت تھی۔ جب آپ اجازت فتویٰ حاصل کرکےبخاراسےواپس چرخ جانےلگےتوایک دن حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور نہایت عاجزی اور انکساری کےساتھ عرض کیا میری طرف توجہ فرمائیں۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نےفرمایاکیا اس وقت جبکہ تم سفرکی حالت میں ہو؟ آپ نےعرض کیا میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کیوں؟ آپ نےعرض کیا اس لئےکہ آپ بزرگ ہیں اور لوگوں میں مقبول ہیں۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کوئی اچھی دلیل ؟ممکن ہے کہ یہ قول شیطانی ہو۔ آپ نے بڑے احترام سے کہا کہ حدیث شریف میں آیاہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ بندےکو اپنا دوست بناتاہےاس کی محبت اپنےبندوں کے دلون میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے تبسم فرماتےہوئےکہا ۔ماعزیزانیم۔
اس کےبعدآپ نےحضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سےالتماس کی کہ میری طرف بھی توجہ فرمائیں۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نےفرمایا ایک شخص نے حضرت عزیزاں رحمتہ اللہ علیہ سے توجہ طلب کی تو انہوں نےفرمایاکہ غیرتوجہ میں نہیں رہتا کوئی چیزہمارے پاس رکھوتاکہ جب میں اسےدیکھوں تو تم یادآجاؤ۔
پھر حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نےآپ سےفرمایاکہ تمہارےپاس تو ایسی کوئی چیزنہیں کہ ہمارےپاس رکھ جاؤ۔ لہذاہمارا کلاہ ساتھ لےجاؤ جب اسےدیکھ کر ہمیں یاد کروگےتوہمیں پاؤگےاوراس کی برکت تمہارےخاندان میں رہےگی۔ پھرفرمایااس سفر میں مولانا تاج الدین دشتی کولکی رحمتہ اللہ علیہ سے ضرورملناکیونکہ وہ ولی اللہ ہیں۔ پھرآپ نے حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سےاجازت لی اور بخاراسےبلخ کی طرف چل پڑے۔
بلخ سےآپ کولک کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں آپ نےبہت تلاش کےبعدحضرت مولاناتاج الدین دشتی رحمتہ اللہ علیہ کو پالیا۔ اس ملاقات میں حضرت دشتی رحمتہ اللہ علیہ کا جورابطہ محبت حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سےتھااس نےآپ کے دل پر اس قدر اثرکیاکہ آپ دوبارہ بخارا کی طرف چل پڑےاورارادہ کیاکہ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کےدست مبارک پر بیعت کریں گے۔
خواجہ یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اس ارادےسےبخاراکی طرف جارہاتھاتوراستےمیں مجھےایک مجذوب ملاتو میں نے ان سےپوچھاکیامیں حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں جاؤں تو اس مجذوب نے کہاجلدی جاؤ۔اس کےبعد مجذوب نےاپنےسامنےزمین پر بہت سی لکیریں کھینچی۔ میں نےدل میں خیال کیاکہ اگر یہ لکیریں مفردہوئیں تومیرامطلب ومقصدحل ہوجائےگا۔ جب گنی تو مفرد ہی نکلیں۔
اس واقعہ کےبعدآپ کا اشتیاق اور بڑھااورشام کےوقت فتح آبادمیں جواس فقیرکامسکن تھاشیخ عالم سیف الدین و خرزی رحمتہ اللہ علیہ کےمزارکی طرف متوجہ ہوکربیٹھےتھےکہ آپ کےدل میں باطنی بےقراری پیداہوئی اورآپ اسی وقت حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سےملنےقصرعارفاں کی طرف چل پڑے۔ جب آپ قصرعارفاں پہنچے توحضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ پہلےہی آپ کے منتظرتھےاورنمازمغر ب کے بعد صحبت کا شرف بخشا۔ پھرآپ نےدرخواست کی کےآپ از راہ کرم مجھےاپنےحلقہ ارادت میں شامل کرلیں ۔ جس پر حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نےحدیث شریف پڑھی جسکاترجمہ یہ ہے:
علم دو ہیں۔ ایک قلب کا علم جو نفع بخش ہے اور یہ نبیوں اور رسولوں کاعلم ہے۔ دوسرازبان کا علم اور یہ بنی آدم پر حجت ہے۔
اس کےبعدفرمایاکہ امیدہےکہ علم باطن سےتمہیں حصہ ملےگااس کےبعدپھرحدیث پڑھی جس کاترجمہ یہ ہے:
جب تم اہل صدق دل کی صحبت میں بیٹھوتوان کےپاس صدق سےبیٹھوکیونکہ وہ دلوں کےبھیدجانتےہیں ،وہ تمہارےدلوں میں داخل ہوجاتےہیں اور تمہارےارادےاورنیتوں کودیکھ لیتےہیں۔۔۔
اس کےبعدفرمایاہم مامورہیں ہم خودکسی کوقبول نہیں کرتے۔آج رات دیکھیں گےکہ کیااشارہ ہوتاہے،اسی پرہی عمل کیاجائےگا۔
حضرت یعقوب چرخی فرماتےہیں کہ یہ رات مجھ پربڑی بھاری تھی۔ مجھےیہ غم کھائےجارہاتھاکہ شاید حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ مجھےقبول نہ کریں۔اگلےروزحضرت یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ نے فجرکی نمازحضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کےساتھ اداکی۔ نمازکےبعدحضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نےآپ کو مخاطب کرکےفرمایامبارک ہوقبولیت کا اشارہ ہواہے۔ پھر اپنے مشائخ کاسلسلہ حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمتہ اللہ علیہ تک بیان کیااورآپ کو وقوٖف عددی میں مشغول کیااورفرمایایہ علم الدنی کا پہلاسبق ہےجوحضرت خواجہ خضرعلیہ السلام نےہمارےبزرگ حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمتہ اللہ علیہ کو پڑھایاتھا۔
شرف بیعت حاصل کرنےکےبعدآپ ایک عرصہ تک خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے۔اس دوران حضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ سےتکمیل تعلیم و تربیت کرتے رہے۔پھرحضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو بخاراسےجانےکی اجازت دی اور بوقت رخصت فرمایاہم سےجوکچھ تمہیں ملاہےاس کوبندگان خداتک پہنچاؤ۔ پھرتین بارفرمایاترابخداسپردیم(ہم نےتجھےخداکےسپردکیا)اوراشارۃً حضرت خواجہ علاؤالدین عطار کی پیروی کرنےکاحکم فرمایا۔
جب آپ بخاراسےچل کرکُش پہنچےجو اصفہان کاایک قصبہ ہےتووہاں آپ کو حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کےوصال کی اطلاع ملی جس سےآپ کو بہت صدمہ ہوا۔ کیونکہ آپ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت سےمحروم ہوگئےتھے لہذادل میں خیال آیاکہ درویشوں کےکسی گروہ سےجاملوں کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ ظاہرہوئےاورقرآن مجید کی سورۃ آل عمران کی آیت ۱۴۴پڑھی جس کاترجمہ یہ ہے:
"(حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں اس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کےبل پھر جاؤ گے"
پھرایک حدیث پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:
"زیدبن حارثؓ نے فرمایادین ایک ہی ہے"
حضرت یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ اس سےمیں سمجھ گیاکہ کہیں اورجانےکی اجازت نہیں ہے۔ اس کےبعدآپ کُش سےبدخشاں چلے گئےجہاں حضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کاچغانیاں سےخط موصول ہواجس میں انہوں نےاشارہ متابت یاد کرایا۔ چنانچہ آپ فوراً چغانیاں کوروانہ ہوگئےاورحضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ آپ چند برس تک ان کی صحبت میں رہے۔حضرت یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ حضرت خواجہ علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کی نظر التفات اس فقیرکےحال پر سب سےزیادہ تھی۔ آپ کاشمارخواجہ علاؤالدین رحمتہ اللہ علیہ کےبہترین خلفاء میں ہوتاہے۔
آپ کی بہت سی کرامات ہیں لیکن بخوف طوالت ایک کرامت درج کی جاتی ہے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمتہ اللہ علیہ اپنے بیعت ہونےکاواقعہ بیان فرماتےہیں کہتےہیں کہ جب میں نے ہرات کےایک سوداگرسےحضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ کے فضائل سنےتوان سے ملنےکےلئےچرخ جانےکےلئےروانہ ہوا۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہواتووہ بڑی لطف وخرم سےپیش آئےاورحضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سےاپنی ملاقات کاحال بیان فرماکراپناہاتھ میری طرف بڑھایا کہاکہ بیعت کر۔کیونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفید ی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔اس لیے میری طبیعت ان کا ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔وہ میری کراہت کو سمجھ گئےاور جلدی اپنا ہاتھ ہٹا لیااور صورت تبدیل کرکے ایسے خوبصورت اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہو گیا قریب تھا کہ میں بے خود ہو کر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔حضرت خواجہ بہاالدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔
آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں جن کے نا م درج ذیل ہیں۔
آپ نے سب سےپہلےتاجک زبان میں قرآن شریف کاترجمہ کیاتھا۔
تفسیر یعقوب چرخی رحمتہ اللہ علیہ ، رسالہ نائیہ، رسالہ انسیہ، شرح رباعی ابوسعیدابی الخیر رحمتہ اللہ علیہ ، ابدالیہ، شرح اسماءاللہ، مخطوطات، قرآن شریف کاتاجک زبان میں ترجمہ، دسالہ دوبارہ اصحاب وعلاماتِ قیامت۔
۵ صفر المظفر ۸۵۱ ہجری میں آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ کے نزدیک ہلغنون، گلستان نامی گاؤں میں آپ کا مرقد مبارک مرکز فیوض و ہدایت ہے۔